شنا باشَے تاریخ

 

شینا زبان کا ارتقا

 

زبانوں کی علاقائی اور مشابہتی درجہ بندی  کے برعکس زبانوں کا وراثتی تعلق لسانی درجہ بندی کے لیے اب بھی ایک بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ وراثتی تعلق کا مطلب کوئی دو زبانیں بولنے والے گروہوں  کا حیاتیاتی رشتہ نہیں ہے بلکہ دنیا کی مختلف  زبانوں کو ان کے مشترک اجداد  کی بنا پر مختلف گروہوں یا خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کسی زبان کی ابتدا کو Stanford model میں  بعض اوقات پروٹو لینگویج یا ابتدائی زبان سے موسوم کیا جاتا ہے۔

چنانچہ  Volume 2, 1992 Sociolinguistic survey of Northern Pakistan از Peter C. Backstrom اورCarla F.Radloff  میں The Dialects of Shina    کے عنوان کےتحت شینا زبان کا لسانی جد Proto Classic Aryan   ہے۔ ابتدائی کلاسیکی آریائی زبان کے بعد ہند یورپی زبانوں کا درجہ آتا ہے۔ اس تناطر میں دیکھا جائے تو ہند ایرانی زبانوں کا بڑا خاندان ایرانی، نورستانی اور ہند آریائی زبانوں کے مزید خاندانوں میں بٹ جاتا ہے۔ اس لحاظ سے آریائی زبانوں کے دو بڑے گروہ بنائے گئے ہیں ایک گروہ شمال مغربی اوردوسرا گروہ وسطی کہلاتا ہے اور شینا کا تعلق زبانوں کے ہند شمالی مغربی گروہ کے تحتی درد خاندان سے ہے پانینی، رگ ویدا اور رامائن کو اگر ہم معتبر source قرار دیں تواس کی قدامت کا اندازہ     1500-600 قبل مسیح بنتاہے۔ اس گروہ میں تقریباً 13 زبانیں بولنے والے گروہ شامل ہیں۔

زبانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ شینا کی ابتدا وسط ایشیا میں کاکیشیا کے میدانوں اور وادیوں میں ہوئی۔

شینا بولنے والے تاریخ کے مختلف ادوار میں نقل مکانی کرتے رہے ہیں اور اس نقل مکانی کی تاریخ  History of Northern Areas,  اور Records on Karakoram Highway,   از ڈاکٹر احمد حسن دانی کی وساطت سے تین مفروضے قائم کئے جاتے ہیں:

میں اس مقالہ میں ان تینوں مفروضوں میں سے زیادہ قرین قیاس مفروضے پر بحث کرنا چاہتا ہوں۔ ایک زیادہ قرین قیاس مفروضہ یہ بتاتا ہے کہ شینا بولنے والے کاکیشیا کی وادیوں سے اٹھ کر براستہ جہلم کشمیر کی وادی میں وارد ہوئے ہوں اور طویل مدت وادئ کشمیر میں رہے ہوں۔کشمیر کی مضافاتی وادیوں گریس، دراس، کارگل اور لداخ میں شینا بولنے والوں کی موجودگی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ شینا بولنے والے کشمیر کی وادی میں رہے ہوں گے۔  ”راج ترنگنی“ سے اس موجودگی کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔

آثار اس بات کے شاہد ہیں کہ شاید کسی دوسرے گروہ کی  نقل مکانی کی وجہ سے شینا بولنے والوں کو راست شمال کی طرف دھکیل دیا گیا ہواور وہ وادی سے نکل کر موجودہ شینا بولنے والی وادیوں میں پھیل گئے ہوں۔ پھر بوجوہ ان وادیوں سے نکل کر شمالی علاقہ جات میں وارد ہوئے ہوں۔ E. F Night کی کتاب ‘Where Three Empires Meet’ اور ‘Oxus and Indus’ میں ان آثار پر بحث موجود ہے۔

مختلف ادوار میں نقل مکانی کے سبب شینا بولنے والوں نے اپنی ہمسایہ زبانوں سے بہت اثر لیا ہے۔. Linguistic research in Gilgit and Hunza: some results and perspectives1985. Journal of Central Asia Vol. III: 127-32.  میں ڈاکٹر گیارگ بدروس  کے مطابق بروشسکی کی ہمسائیگی کے سبب شینا کی صوتی حالت اور گرائمر کچھ Aerial اور typological فرق کے ساتھ بروشسکی سے بہت ملتی جلتی ہے جبکہ شینا اور بروشسکی کا صوتی نظام اور ان دو زبانوں کا pitch accent pattern بھی بالکل ایک جیسا ہے۔ اس لیے ان دو زبانوں نے ایک دوسرے سے الفاظ کی صورت میں بھی بہت کچھ لیا ہے۔ ثقافتی لحاظ سے جب ہم شینا اور بروشسکی کے سوچنے کے عمل کی نچلی تہوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ”بِٹن“ اور ”دںۡیل“ کی وجدانی شاعری    کے شینا Mythemes اور بروشسکی رزمیے کا شینا ہونا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ان زبانوں کا ثقافتی عمل ایک ہی نوع کے سوتے سے پھوٹا ہو گا۔  Heidelberg University   کے پروفیسر   Dr. Holtzwarth   کا  کام اس جانب رہنمائی کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

شینا زبان بولنے والوں کا سماجی ڈھانچہ قبائلی رہا ہے۔ ان کی زندگی گلہ بانی کسانی رہی ہے ایسی حالت نے اکثر انہیں تمدن کے مراکز اور شہری زندگی سے دور رکھا ہے۔ وہ اکثر پہاڑوں کی وادیوں میں زندگی گذارتے رہے ہیں جس کی وجہ سے شینا نے اپنے خاص حالات میں اپنے طور نشونما پائی ہے۔ ان حالات اور ماحول کو اگر نظر میں رکھا جائے تو شینا بے حد ثروت مند زبان ہے۔ الفاظ کا ذخیرہ بے اندازہ اور فراواں ہے جو اس کی مستقل ترقی کا ضامن ہے۔

کاروباری، تکنیکی اور علمی اصطلاحات شینا بھی دیگر زبانوں کی طرح مستعار لے رہی ہے اور وہ اردو کے ذریعے لے رہی ہے۔

شینا اگرچہ قدیم ہے اس میں کلاسیکی شاعری اور لوک ادب کا بے اندازہ ذخیرہ موجود ہے جو سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے۔ لیکن تمدنی آسائشوں کے نہ ہونے کے سبب شینا میں تحریر کی صورت بہت دیر بعد پیدا ہوئی۔ ایک نظریہ ابھی حال ہی میں لپی Lipi کے حوالے سے سامنے آیا ہے کہ شینا بولنے والوں کے کسی تمدنی دور میں لِپی ان کا تحریری نظام رہا ہو۔ سارگن saargin اور نیلوۡ بٹ niilo ba کے آثار اس بات کا بخوبی پتہ دیتے ہیں کہ شینا بولنے والے ایک تمدنی دور سے گذرے ہیں لیکن ان کا مذہبی اور تحریری ورثہ زمانے کے دستبرد سے محفوظ نہ رہ سکا۔

لہٰذا پروفیسر عثمان علی  خان کے مطابق شینا کوپہلی بار 1893  میں محکمہ بندوبست کے ایک نائب مہتمم امیر سنگھ نے لکھنے کی کوشش کی۔جبکہ 1915 میں محکمۂ بندوبست کے ایک اور نائب مہتمم  ٹھاکر سنگھ نے بھی شینا لکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر اس بارے میں باقاعدہ کام کا آغاز 1924 میں (T. Graham Baily) ٹی گراہم بیلی نے  شینا گرائمر لکھ کر کیا۔ شینا کو باقاعدہ طور پر اردو رسم الخط میں ڈالنے والا پہلا شخص محمد امین ضیا ہے جس نے شینا  گرائمر  اور شینا صوتیات مرتب کر کےشینا کوابتدائی باقاعدہ صوتی حروف بہم پہنچائے۔

لیکن صوتیات سے اگلا مرحلہ فونیات Phonemics  کا درپیش ہوتا ہے جس کا تجزیہ حاصل ہونے کے بعد ان تمام صوتی آوازوں کو فونیاتی اکائیاں قرار دیا جاتا ہے۔ ان حاصل شدہ صوتی آوازوں کے تجزیے سے میسر آنے والی فونی اکائیاں کسی زبان کے لفظ کی بناوٹ میں معنوی صورت کی حامل ہوتی ہیں۔ اس بات سے معلوم ہوا کہ صوتی حرف کسی زبان کے لیے معنوی صورت کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ کسی زبان میں موجود  ایک آواز کی غیر مرتب صورت ہے۔ اس ضمن میں ان صوتی حروف کو فونی حروف کی صورت دینے والا پہلا شخص بھی محمد امین ضیا ہے جن کی شینا قاعدہ اورگرائمر حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔    

شینا صوتیات و فونیات پر جدید لسانیاتی بنیادوں پر کام کا آغاز سمر انسٹٹیوٹ آف لنگوسٹکس کی ماہر لسانیات کرلا ایف ریڈلاف نے Aspects of the Sounds of Gilgiti Shina, 1999  مرتب کر کے کیا ہے۔ اب شینا زبان کی پشت پر ایک باقاعدہ تحقیق شدہ صوتیات و فونیات کا کام موجود ہے جس کو سامنے رکھ کر ایک باقاعدہ علم الاصوات پر مبنی لکھائی کے نظام کو تشکیل دیا گیا ہے۔

یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ پڑھائی لکھائی کا نظام فونیات کے مرحلے پر آ کر ایک باقاعدہ لکھائی کے نظام کا روپ نہیں دھار سکتا، بلکہ یہ عمل ایک اگلے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جہاں اس کا تعلق سماج کی سوچ، اس کے رویے اور اس کی سیاسی تنظیم اور اس سے پیدا ہونے والی فکر سے مربوط ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس مرحلے میں جمہور کی طرف سے کسی نئے ۟مجوزہ نظام پڑھائی لکھائی کو پزیرائی مل سکتی ہے یا اسے نا پسند کیا جا سکتا ہے۔ اس پزیرائی یا نا پسندیدگی کے عمل کو وقوع پذیر کرنے کے لیے اس سماج کے زبانی روایتی ادب کو جو ان کے حافظے میں کسی حد تک محفوظ ہوتا ہے پیش کیا جاتا ہے۔ اگر لکھائی کا نظام علم الاصوات پر مبنی نظام ہے تو وہ جمہور کے ذہنی خاصے کی عکاسی کرے گا اور ایک مستقل لفظی شکل کی صورت اختیار کرے گا۔

  اس سارے عمل کی ساخت پر غور کیا جائے تو اس کی تقویم کے نتیجے میں وجود میں آنے والا لسانی ماڈل ایک بالکل نئے لسانی ڈسپلن کی شکل میں سامنے  آ چکا ہے۔ یہ لسانی ماڈل شکیل احمد شکیل نےاپنی تحقیقی کاوش ”شینا زبان–نظام پڑھائی لکھائی کا جائزہ (لسانیاتی، سماجیاتی، نفسیاتی تجزیہ )“  کی صورت میں پیش کیا ہے۔ چنانچہ اس کام نے شینا کو لکھنے کے لیے ”علم الاصوات پر مبنی باقاعدہ لکھنے کا نظام“ بہم پہنچایا۔ اب ہم تاریخ کے اس دھانے پر کھڑے ہیں جہاں سے شینا کے لوک ادب کو تحریر کی صورت دینے اور جدید شینا ادب پیدا کرنےکاسفر شروع کیا جاتا ہے۔

آخر میں مجھے گندھارا ہندکو بورڈ  پاکستان اور اس  کانفرنس کے منتطمین کی اس بے لاگ  کاوش کو خراج تحسین پیش کرنا ہےجس نے پاکستان میں بولی جانے والی بیسیوں زبانوں کے حساس لوگوں کوایک پلیٹ فارم مہیا کر کے ان کو یک آواز کردیا   ہے،

                                                                     ہم نے سیکھا ہے آذانِ سحری سے یہ اصول

                                                                     لوگ  خوابیدہ  سہی  ہم  کو   صدا  دینا  ہے

 

map_rsz_0.jpg